Vinkmag ad

ٹی بی سے بچیں اور بچائیں

ٹی بی سے بچیں اور بچائیں

بدقسمتی سے تمام تر کوششوں کے باوجود ٹی بی کا مرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ لوگوں میں اس کے بارے میں آگہی نہ ہونا اور دوسرا علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی چھوڑ دینا ہے۔ اس مرض سے حقیقی معنوں میں پرہیز یہی ہے کہ اس کے مریضوں کا ڈھونڈ ڈھونڈ کر علاج کیا جائے تاکہ وہ اس کے مزید پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں۔ اس موضوع پرشفا انٹرنیشنل ۔ہسپتال اسلا م آباد کے ماہر امراض ِ سینہ ڈاکٹر آفتاب اختر اہم معلومات فراہم کر رہے ہیں

ٹی بی کیا ہے اور کیسے لگتی ہے؟

ٹی بی ایک جرثومے مائیکروبیکیڑیم ٹیوبرکلوسس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس مرض کا شکار فرد جب سانس لیتا یا کھانستا ہے تواس کے جراثیم ہوا میں شامل ہو کر دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یوں پھیپھڑوں کی ٹی بی تو ایک فرد سے دوسرے کو لگتی ہے۔ تاہم اس کی دیگر اقسام مثلاً دماغ، ہڈیوں اورمعدے وغیرہ کی ٹی بی اس طرح دوسروں تک منتقل نہیں ہو سکتی۔تقریباً 80 فی صدکیسز میں ٹی بی پھیپھڑوں کی ہوتی ہے، اس لئے کہ جراثیم سب سے پہلے انہی میں جاتے ہیں۔

اس مرض کی اقسام کون سی ہیں؟

 اس کی دو اقسام زیادہ اہم ہیں۔ پہلی ٹی بی وہ ہے جسے ادویات سے ٹھیک ہو جانے والی ٹی بی (drug sensitive TB) کہتے ہیں۔ یہ دوائیں کھانے سے ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مریض علاج نہ کروائے یااسے ادھورا چھوڑ دے تو وہ شدید نوعیت اختیار کر لیتی ہے اور اس پر ادویات غیرموثر ہوجاتی ہیں۔ اسے دواﺅں سے مزاحم ٹی بی (drug resistant TB) کہتے ہیں۔

پاکستان میں یہ مرض کتنا عام ہے؟

پاکستان میں یہ اب بھی بہت عام ہے اور بدقسمتی سے اس کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کا بڑا سبب لوگوں میں آگہی کی کمی اور علاج بیچ میں چھوڑ دینا ہے۔ اگر علاج ادھورا چھوڑ دیا جائے تو ٹی بی سخت ہوجاتی ہے اورعلاج بھی طویل ہوجاتا ہے۔

ٹی بی کی علامات کیا ہیں؟

ٹی بی کہیں کی بھی ہو، اس کی علامات میں بھوک کی کمی، رات کو بخار ہونا، ٹھنڈے پسینے آنا اوروزن میں کمی شامل ہیں۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی میں ان علامات کے ساتھ ساتھ کھانسی اور بلغم بھی آ سکتا ہے۔ یہ مرض زیادہ پھیل جائے توبلغم میں خون بھی آسکتا ہے۔

کھانسی کوکب زیادہ سنجیدہ لینا چاہے؟ہے

ایک ماہ تک کھانسی برقرار رہے تو اسے سنجیدہ لینا چاہیے کیونکہ یہ ٹی بی کی اہم علامت ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر سے معائنہ کرانا چاہئے اور اگر وہ کوئی ٹیسٹ تجویز کرے تو اسے سنجیدہ لینا چاہیے۔

ڈاکٹر حضرات بعض اوقات ’چھپی ہوئی ٹی بی‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟

چھپی ہوئی ٹی بی، مرض کی وہ حالت ہے جس میں اس کے جراثیم جسم میں داخل ہو تو جاتے ہیں لیکن فوری طور پر ٹی بی کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ تاہم مستقبل میں اس کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کو بھی ٹی بی کی دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں تاکہ جراثیم متحرک ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں اور مرض کا باعث نہ بنیں۔ اگر کوئی شخص ٹی بی کے مریض کے قریب رہا ہو تو اسے بھی اس انفیکشن کا ٹیسٹ کرو الینا چاہیے۔

کیا اس مرض سے بچاؤ ممکن ہے؟

اس سے مکمل طور پر بچاؤممکن نہیں، اس لئے کہ ہمارے اردگرد اس کے مریض اور جراثیم موجود رہتے ہیں اور ہمیں ان کا علم بھی نہیں ہوتا۔ تا ہم اس سے متعلق آگاہی اور کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے اس سے کسی حد تک بچاجا سکتاہے۔اس کی علامات سب کو معلوم ہونی چاہئیں تاکہ بروقت تشخیص اورعلاج ممکن ہو سکے۔

کیا اس مرض کا تعلق کسی خاص عمر سے ہے؟

نہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ مرض بچے،جوان، بوڑھے، سبھی کو ہو سکتا ہے۔

بچوں میں اس کی شرح کتنی ہے؟ ہے 

بچوں کو ٹی بی، بڑوں کے پھیلائے ہوئے جراثیم کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ ٹی بی کی کل شرح کا 10 فی صد بچوںمیں ہے۔ یہ زیادہ تر نوجوانوں میں ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان معاشرتی طور پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ ان کا لوگوں سے ملنا جلنا زیادہ ہوتا ہے۔کم عمر بچے اور بڑی عمر کے افرادمیں اس کی وجہ بیماریوں کے خلاف دفاعی نظام کا کمزور ہونا ہے۔ یہ کوئی موروثی بیماری نہیں جو دورانِ حمل ماں سے بچے میں منتقل ہو جاتی ہو۔ اس کی شکار خواتین بچے کو اپنادودھ پلا سکتی ہیں۔ اگر وہ علاج کروا رہی ہیں تو پھر اس سے بچے کو خطرہ نہیں ہے۔ ماﺅں کو چاہئے کہ بچوں کی دیکھ بھال کے دوران کھانسنے سے پرہیز کریں۔

ٹی بی کے مریضوں کو کیا احتیاطیں کرنی چاہییں؟

اس کے مریض دوا شروع کرنے کے بعد مقررہ مدت سے پہلے دوا کا استعمال ہرگز بند نہ کریں۔ اگر اس دوران کوئی مضر اثرات ظاہر ہوں تو ڈاکٹرسے لازماً رجوع کریں۔ دوائیں شروع کرنے کے بعدکم از کم دو ہفتوں تک ہوا دار اور روشن کمرے میں ہیں‘ چھوٹے بچوں کو گود میں نہ اٹھائیں اور لوگوں میں بیٹھ کر کھانسنے سے پرہیز کریں۔ اس کے مریضوں کو چاہئے کہ ماسک استعمال کرےں۔ ان کے برتن الگ کرنے کی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ جراثیم سے آلودہ برتنوں سے ٹی بی نہیں لگتی۔ اہل خانہ اور احباب کو چاہئے کہ مرض کے آغاز میں مریض کے بہت زیادہ قریب مت بیٹھیں تاہم دوائیں استعمال کرنے کے دو ہفتے بعد اس سے ملنے جلنے میں حرج نہیں۔

دواؤں کورس مکمل نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں؟

ایسے میں ٹی بی مکمل طور پرختم نہیں ہوتی بلکہ پہلے سے زیادہ پکی ہوجاتی ہے، اس لئے کہ جراثیم میں دواؤں کے خلاف قوت مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ان پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ ایسی ٹی بی کی دوائیں سخت ہیں اور ان کے کورس کا دورانیہ بھی چھے ماہ کی بجائے 18 مہینوں تک ہوجاتا ہے۔

بعض اوقات ٹی بی کے مریضوں کو کسی پر فضا مقام مثلاً سملی سینیٹوریم مری بھیج دیا جاتا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟

وہاں کی آب و ہوا اچھی ہوتی ہے، مریضوں کو دوا ڈاکٹروں کی زیر نگرانی باقاعدگی سے دی جاتی ہے، ان کی خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے اور ماحول کھلا ہونے کے باعث بیماری ایک سے دوسرے فرد کو نہیں لگتی۔ ان وجوہات کی بنا پر کچھ مریضوں کو یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ وہاں رہیں۔

کیا  بلغم کا بار بار آنا ٹی بی کی علامت ہے؟

نہیں ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی اور بہت سی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً سانس کی نالی یا پھیپھڑوں میں کوئی مسئلہ یا دمہ بھی بلغم کا سبب ہوسکتا ہے۔

کیا اس مرض کا تعلق کام کی نوعیت سے بھی ہے؟ ہے

کان کنی سے وابستہ افراد یا کوئلے کی فیکٹری میں کام کرنے والے لوگوں کے پھیپھڑے نسبتاً زیادہ نازک ہو جاتے ہیں جس کے باعث انہیں ٹی بی ہونے کے امکانات ذرا زیادہ ہوتے ہیں۔

ماحول اورٹی بی کاآپس میں کیا تعلق ہے؟

تنگ و تاریک گھر اور زیادہ افراد کے ایک ہی جگہ رہنے سے ایک سے دوسرے فردکو ٹی بی لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ گھر ہوادار اور روشن ہو۔

لوگ غربت کے باعث تنگ یا چھوٹے گھروں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ نہیں سکتے ۔ایسے میں آپ انہیں کیا مشورہ دیں گے؟

ایسے افراد کے لےے صحت کے متعلق آگاہی بہت ضروری ہے۔ اگر کسی شخص کی کھانسی ٹھیک نہ ہورہی ہو،اس کی بھوک اور وزن میں کمی آرہی ہو اوربخار بھی نہ اتر رہا ہو تواسے فوراً اپنا معائنہ کرالینا چاہیے۔

اسے غریبوں کی بیماری کیوں کہا جاتا ہے؟

 غربت کی وجہ سے تنگ گھروں میں بہت سے افراداکٹھے رہتے ہیں، اس لےے انہیں یہ مرض ذرازیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے آغاز میں اسے غریبوںکی بیماری کہا جاتا تھا لیکن اب یہ غریب، امیر سب کو بلا امتیاز ہو رہی ہے ۔

کیا غذائی کمی سے بھی اس مرض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟

غذائی کمی کے باعث قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔اس لےے صرف ٹی بی ہی نہیں،دیگرا مراض کے امکانات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔

ٹی بی کے اکثر مریض اپنی بیماری چھپاتے ہیں۔اس کی وجہ کیا ہے؟

 لوگوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ بیماری انہیں نہ لگ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹی بی کے مریضوں کو بالکل الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ماضی میں اس کی وجہ سے اموات زیادہ ہوتی تھیں، اس لےے لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے تھے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہےے کہ یہ قابل علاج بیماری ہے۔ اگر مریض وقت پر اپنا علاج شروع کروا دیتا ہے تو ادویات کھانے کے دو ہفتے کے اندر ہی وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کے جراثیم مزید پھیلاﺅ کا سبب نہ بنیں۔ اس لیے ٹی بی کا وہ مریض جس نے دوا کھانا شروع کر دی ہو، اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔

گفتگوکو سمیٹتے ہوئے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

پاکستان میں ٹی بی ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن یہ ایک قابل علاج مرض ہے۔ لہٰذا اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے متعلق آگاہی ضروری ہے تاکہ اس کا علاج بروقت ممکن ہو سکے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اس مرض میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

 

TB, tuberculosis, TB prevention, Interview on TB, FAQs on TB, precautionary measures for TB patients 

Vinkmag ad

Read Previous

Research Corner

Read Next

آپ کے صفحات

Leave a Reply

Most Popular