Vinkmag ad

کیا کرغزستان میں ڈاکٹر بننا ہی واحد آپشن ہے؟

کرغزستان سے آنے والی خبریں، تصاویر اور ویڈیوز تشویشناک ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کرغزستان میں ڈاکٹر بننے کے خواہش مند طلبہ و طالبات کے والدین ہیں۔ انہوں نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ بچوں کے خواب پورے کرنے میں لگا دیا۔ اب وہ اور بچوں کا مستقبل، دونوں داؤ پر لگے ہیں۔ کرغزستان کے حکام تسلی دے رہے ہیں کہ صورت حال قابو میں ہے۔ تاہم طلبہ و طالبات شدید عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ ان کی بڑی تعداد واپس وطن لوٹ رہی ہے۔ اس وقت تقریباً 12,000پاکستانی وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

طلبہ میڈیکل ایجوکیشن کے لیے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟

پہلی وجہ یہ ہے کہ والدین کی بڑی تعداد بچوں کو ڈاکٹر ہی بنانا چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ سب سے قابل عزت اور باوقار پیشہ ہے۔ کچھ کے نزدیک اس میں پیسہ بہت ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے بچوں اور بچیوں کے رشتے اچھے ملیں گے۔ یوں بہت سے والدین کے لیے ایم بی بی ایس پہلا چوائس ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی اپنے بچے کو ڈاکٹر ہی بنانا چاہتا ہے۔

میڈیکل میں داخلے کے خواہشمندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف سرکاری کالجوں میں سیٹیں محدود ہیں۔ یوں میرٹ بہت زیادہ ہائی ہوتا ہے۔ پرائیوٹ میڈیکل کالجز میں بھی داخلہ مشکل سے ملتا ہے۔ یوں والدین ایسے ملک ڈھونڈتے ہیں جہاں تعلیم نسبتاً سستی اور میرٹ کم ہو۔

کرغستان، چین اور بیلاروس وغیرہ کے میڈیکل کالجز میں ایم ڈی کیٹ جیسے ٹیسٹ نہیں ہوتے۔ داخلے کے لیے محض فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونا کافی ہوتا ہے۔ اس لیے کرغزستان میں ڈاکٹر بننا نسبتاً آسان سمجھا جاتا ہے۔

صرف ایم بی بی ایس کی باتیں ماضی کا قصہ ہیں

اگر میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ہوتا تو کیا بچے کو دوسرے ملک بھیجنا ضروری ہے یا یہاں ہی کچھ اور آپشن بھی موجود ہیں۔

ڈاکٹر فرخ متین شفا کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی کے پرنسپل ہیں۔ ان کے بقول میڈیکل میں صرف ایم بی بی ایس کی باتیں ماضی کا قصہ ہیں۔ آج حقیقت بدل چکی ہے:

”انجینئرنگ کی طرح اب میڈیسن میں بھی بہت سے شعبہ جات ہیں۔ ان میں سے بعض کی تنخواہوں اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔”

شفا کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی سے تعلیم حاصل کرنے والے کچھ طلبہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ لوگ میڈیکل سے متعلق شعبوں میں اچھی جابز کر رہے ہیں۔ ایک مثال ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محمد عثمان کی ہے۔ جب میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا تو انہوں نے کارڈیئک فزیالوجی میں ڈگری حاصل کی۔ اس کے فوراً بعد انہیں آئرلینڈ کے ایک ہسپتال میں ملازمت مل گئی۔ ایک اور طالب علم محمد شعیب نذیر ہیں۔ میڈیکل میں داخلہ نہ ملنے پر انہوں نے ٹیکنیکل تعلیم حاصل کی۔ چھ ماہ بعد ہی انہیں سعود ی عرب میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ ایسی ہی کہانی تلہ گنگ کے محمد سمیع اللہ کی بھی ہے۔ یہاں سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ سعودی عرب اور پھر برطانیہ چلے گئے۔ یوں وہ اپنی زندگیاں بھی بنا رہے ہیں اور قیمتی زرمبادلہ بھی ملک میں لا رہے ہیں۔

میڈیکل میں متبادل اور پرکشش مواقع

میڈیکل کے شعبے میں اور بھی آپشنز موجود ہیں۔ مثلاً آپ ‘کارڈیئک پرفیوژنسٹ’ بن سکتے ہیں۔ اس شعبے کا ماہر دل کے آپریشن کے دوران دل اور پھیپھڑوں کا کام سنبھالنے والی مشین کو مانیٹر کرتا ہے۔ اس کی تکنیکی معاونت کے بغیر سرجری ممکن نہیں۔ اس شعبے میں تنخواہیں بہت اچھی ہیں اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت کم ہے۔

امراض چشم کے شعبے میں آپتھلمالوجسٹ کے علاوہ آرتھوپٹسٹ اور آپٹومیٹرسٹ بھی ہوتے ہیں۔ آرتھوپٹسٹ بنیادی طور پر تین کام کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلا بھینگے پن کی تشخیص اور علاج ہے۔ دوسرا کام موتیے اور نظر کی کمزوری کا ابتدائی جائزہ لینا ہے۔ ان کا تیسرا کام آنکھ کی سرجری سے پہلے ابتدائی تجزیہ کرنا ہے۔ آپٹومیٹری کا زیادہ تعلق کنٹیکٹ لینز وغیرہ سے ہوتا ہے۔

مرض کی تشخیص سے لے کر علاج تک ہر مرحلے پر مشینیں استعمال ہو رہی ہیں۔ جہاں مشینیں ہوں، وہاں انجینئرنگ لازمی آتی ہے۔ ایسے میں بائیو میڈیکل انجینئرز کی بہت مانگ ہے۔

شعبہ بحالی صحت میں فزیو تھیراپی، آکوپیشنل تھیراپی اور سپیچ تھیراپی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آپ کے پاس ریڈیو گرافک ٹیکنالوجسٹ، ڈائٹیشن، لیبارٹری ٹیکنیشن، میڈیکل ٹرانسکرپشنسٹ اور مائیکرو بیالوجسٹ بننے کے مواقع بھی ہیں۔ نرسنگ کی تو ملک اور بیرون ملک بہت مانگ ہے۔ یہ تو محض چند شعبہ جات ہیں۔ مزید تفصیلات آپ خود حاصل کر سکتے ہیں۔

پانی کی خصوصیت ہے کہ اگر راستے میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو وہ سائیڈ سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ اس لیے اگر میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ہوا تو کرغزستان میں ڈاکٹر بننا ضروری نہیں۔ ذرا سا آؤٹ آف دی باکس سوچیں، حل نکل آئے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

گرمی اور یہ پسینہ

Read Next

معذور افراد کے لیے غذائی احتیاطیں

Leave a Reply

Most Popular