Vinkmag ad

فوڈ الرجی

امیون سسٹم وہ نظام ہے جو کسی نقصان دہ عامل کے جسم میں داخل ہونے پر اس کے خلاف رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ نظام ان عوامل کے خلاف بھی غیر معمولی رد عمل ظاہر کرے جو عموماً زیادہ تر افراد کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتے تو اس رد عمل کو الرجی کہتے ہیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب مدافعتی نظام بالعموم غیر مضر عامل کو بھی مضر سمجھ لیتا ہے۔ الرجی کا سبب بننے والے عوامل میں کھانے پینے کی اشیاء بھی شامل ہیں۔ کھانے سے الرجی کو فوڈ الرجی کہتے ہیں۔

فوڈ الرجی کی شرح

شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد کے الرجی سپیشلسٹ ڈاکٹر اطہر نیاز رانا کہتے ہیں کہ فوڈ الرجی کافی عام ہے۔ بعض سٹڈیز کے مطابق ہر 100 میں سے 10 بچوں کو یہ الرجی ہوتی ہے۔ بہت سے عوامل اس کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں ماحولیاتی عناصر، کھانے پینے کی عادات اور ہوا میں آلودگی شامل ہیں۔ مزیدبرآں آج کل لوگوں میں صحت سے متعلق آگہی کافی زیادہ ہے لہٰذا یہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان کی تشخیص بھی ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔

تقریباً 170 چیزوں سے الرجی ہو سکتی ہے۔ تاہم نو(9) اشیاء مثلاً دودھ، گندم، انڈے، چکن، درختوں پر لگنے والے میوہ جات، مچھلی، سویا، شیل فِش اور تِل سے ہی زیادہ تر الرجی دیکھنے میں آتی ہے۔

الرجی کا سبب بننے والے کھانے-فوڈ الرجی-شفانیوز

کھانے سے الرجی کسے ہوتی ہے

عام خیال یہ ہے کہ فوڈ الرجی صرف بچوں کو ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر اطہر کہتے ہیں کہ یہ کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے۔ تاہم بڑوں کی نسبت بچوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔

پرائم میڈیکل سنٹر دبئی کی پیڈیاٹرک الرجی سپیشلسٹ ڈاکٹر گوریکا بنسل کہتی ہیں:

والدین میں سے کسی ایک کو الرجی ہو تو 25 سے 30 فی صد امکانات ہیں کہ بچے کو بھی الرجی ہو گی۔ اس کے برعکس میاں بیوی دونوں کو الرجی ہو تو اس کے امکانات 50 سے 60 فی صد ہوتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ والدین کو الرجی ہے تو بچوں کو بھی وہی یا کوئی دوسری الرجی ہوگی۔

علامات کیا ہیں

ڈاکٹر اطہر کا کہنا ہے کہ جس چیز سے الرجی ہو اسے صرف چھونے سے بھی ہاتھوں یا انگلیوں پر ریشز اور سوجن ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اسے پکا رہا ہو اور آپ قریب ہوں تو بھی الرجک ری ایکشن ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً ناک بہہ سکتی ہے یا چھینکیں آ سکتی ہیں۔ پھر اسے کھانے سے منہ، زبان یا گلے میں خارش، جلد پر دھپڑ اور خارش ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات دمے کا اٹیک بھی ہو جاتا ہے جس کے باعث سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اینا فیلیکسز ری ایکشن بھی ہو سکتا ہے:

اینافیلیکسز خطرناک ردعمل ہے۔ یہ ایسی چیز کھانے یا ایسے الرجن سے رابطے کے باعث ہوتا ہے جس سے شدید الرجی ہو۔ ایسے  میں وہ چیز کھاتے ہی جسم میں رد عمل شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً دھڑکن تیز ہو جاتی اور بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے اور مریض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں۔ بلڈ پریشر بہت زیادہ کم ہو جائے تو فرد بے ہوش ہو جاتا ہے۔

الرجی شدید نوعیت کی ہو تو منہ میں اور زبان پر سوجن، بولنے یا سانس لینے میں دشواری اور سانس لیتے ہوئے خراخراہٹ جیسی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔

سانس لیتے ہوئے خرخراہٹ،اینافیلیکسز کی علامت-شفانیوز

تشخیص اور علاج

ڈاکٹر اطہر کہتے ہیں کہ الرجن کی تشخیص میں مریض کی ہسٹری اہم ہوتی ہے۔ کچھ مریض خود بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیا کھایا جس سے یہ مسئلہ ہوا۔ خون اور جلد کے ٹیسٹوں سے بھی تشخیص ہو جاتی ہے۔ جہاں تک اس سے نپٹنے کی بات ہے تو اس میں سب سے ضروری یہ ہے کہ الرجن کو چھونے یا کھانے سے گریز کریں۔

ڈاکٹر سلیم کہتے ہیں کہ اس کے علاج میں ادویات بھی استعمال ہوتی ہیں۔ یہ دوائیں مدافعتی نظام کے رد عمل کو کنٹرول کر کے علامات میں کمی لاتی ہیں۔ شدید نوعیت کی الرجی ہو یا باقی آپشنز سے افاقہ نہ ہو تو امیونو تھیراپی کی جاتی ہے۔ اس صورت میں علامات کو کم کرنے والے ٹیکے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ الرجی کے علاج میں سٹیرائیڈز استعمال ہوتے ہیں جو نقصان دہ ہیں۔ ڈاکٹر اطہر کہتے ہیں ہر مریض کو سٹیرائیڈز نہیں دئیے جاتے:

یہ صرف تبھی استعمال کیے جاتے ہیں جب ان کی ضرورت ہو یا علامات بہت زیادہ شدید ہوں۔ مزیدبرآں انہیں کم وقت کے لئے تجویز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کوئی خاص سائیڈ افیکٹس نہیں ہوتے۔ اگر انہیں لمبے عرصے کے لئے استعمال کیا جائے یا خود علاجی کی جائے تو مسائل ہوتے ہیں۔

فوڈ الرجی سے بچاؤ

ڈاکٹر اطہر کہتے ہیں کہ اس سے مکمل بچاؤ مشکل ہے۔ تاہم باقاعدگی سے اینٹی ہسٹامین (الرجی کی ادویات) کھانے سے علامات کی شدت کم ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر گوریکا کہتی ہیں کہ بچوں کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں کیے جانے والے اقدامات الرجی کے امکانات کو کم کرنے میں مفید ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ماں دوران حمل اپنے وٹامن ڈی کے لیول کو مناسب حد میں برقرار رکھے اور پروبائیوٹکس استعمال کرے۔ یہ وہ کھانے ہیں جو جسم کے لئے مفید بیکٹیریا کی افزائش اور ان کے نارمل لیول کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں:

خواتین نارمل زچگی کو ترجیح دیں کیونکہ شرم گاہ میں آنتوں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا کی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ یہ بچے کے لئے مفید ہے۔ پیدائش کے بعد بچے کو ماں کا دودھ پلائیں۔ اس میں موجود پروبائیوٹکس قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں مدد دیں گے۔ بچے کو صحت بخش خوراک کھلائیں اور چھ ماہ کی عمر کے بعد ایک ایک کر کے کم مقدار میں وہ کھانے دینا شروع کر دیں جن سے ممکنہ طور پر الرجی ہو سکتی ہے۔ کوئی مسئلہ نہ ہو تو ان کا استعمال جاری رکھیں ورنہ ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

گھر پر دیکھ بھال

ڈاکٹر اطہر کے مطابق معمولی الرجک ری ایکشن کی صورت میں ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے میں گھر پر ہی دیکھ بھال مثلاً باقاعدگی سے دوائیں کھاتے رہنا کافی ہوتا ہے۔ شدید الرجی ہو یا پہلے کبھی اینا فیلیکسز ری ایکشن ہوچکا ہو تو گھر پر علاج شروع تو کیا جاسکتا ہے مگر ہسپتال جانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم کہتے ہیں کہ معمولی الرجک ری ایکشن میں ادویات کے علاوہ متاثرہ حصے پر ٹھنڈی ٹکور کریں۔ اینٹی الرجی کریم بھی لگائی جاسکتی ہے۔ متاثرہ حصے کو کھرچنے سے گریز کریں۔ اگر چھینکیں آرہی ہوں، ناک بہہ رہی ہو یا بند ہو جائے تو ناک کو ٹھنڈے یا نمک ملے پانی سے صاف کریں۔ بند ناک کھولنے والے سپرے استعمال کریں۔

کھانے کی کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے لیبل ضرور پڑھیں اور گھر سے باہر کھانا کھاتے ہوئے زیادہ احتیاط کریں۔ قریبی لوگوں کو اپنی الرجی سے متعلق آگاہ کریں۔ ایمرجنسی صورتوں کے لئے اپنے پاس انجیکشن (اگر ڈاکٹر نے تجویز کیا ہو) اورکوئی ڈائری یا کاغذ رکھیں جس پر درج ہو کہ آپ کو فلاں الرجی ہے۔

صحت کے بعض مسائل پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا لیکن فوڈ الرجی کو معمولی احتیاطوں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس لاپروائی خطرے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس لئے خیال رکھیں اور ڈاکٹر جو دوا جتنی مدت کے لئے اور جتنی مقدار میں تجویز کرے، اسے ضرور لیں۔ بعض اوقات کچھ عر صہ پرہیز کرنے سے بھی متعلقہ کھانے سے حساسیت کم یا ختم ہو جاتی ہے۔

food allergy, causes & symptoms of food allergy, khanay say allergy, management of food allergies, food allergy treatment

Vinkmag ad

Read Previous

MYTH: Antiperspirants cause breast cancer

Read Next

جاپانی پھل کے فوائد

Leave a Reply

Most Popular