Vinkmag ad

دنیائے فیشن کا دارالحکومت۔۔۔پیرس…پیارکا پہلا شہر

پیرس فرانس کا دارالحکومت تو ہے، فیشن کا عالمی دارالحکومت بھی کہلاتا ہے ۔یہاں کی اکثر گلیاں اور سڑکیں وسیع اور روشن ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 1816ءمیں بالٹی مور (امریکہ) میں پہلی دفعہ گیس سے چلنی والی سٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس کے چند ہی سالوں بعد 1820میں یہ پیرس میں بھی لگادی گئیں۔ہمارے ٹورسٹ گائیڈ کا اصرار تھا کہ گیس سے چلنے والی لائٹس بھی پہلی دفعہ پیرس میں ہی لگائی گئیں، تاہم پیرس دنیا کا پہلا شہر ہے جس میں الیکٹرک سٹریٹ لائٹس لگائی گئیں۔ یہاں صحت کی صورت حال اور نگہداشت صحت کی سہولیات بھی بہت اچھی ہیں۔ فریحہ فضل کی ایک معلوماتی تحریر

روشنیوں‘خوشبوﺅں اورفیشن کا شہر پیرس ہمارا اگلا پڑاﺅ تھا۔ مجھے یہ تویاد نہیں کہ پیرس کا نام پہلی دفعہ کب اور کیسے میری سماعتوں سے ٹکرایا، البتہ یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس شہرمیں پہلی بار دلچسپی ”پیارکا پہلا شہر“ پڑھ کر ہوئی۔مستنصر حسین تارڑ کے اس ناول کا پس منظر ان کا پیرس کا سفر ہے جس کا مرکزی خیال پاسکل اور سنان کی دوستی اور پھر علیحدگی ہے۔ جب یہ ناول پڑھا تو نوعمری کا دور تھاجس میں خیال کا گھوڑا کچھ زیادہ ہی سرپٹ دوڑتا ہے ۔بس پھر کیاتھا، پاسکل کے پیرس سے ہمیں بھی محبت ہوگئی اور یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قدرت ایک دن ہمیں بھی اس شہر کی سیر کاموقع دے گی۔
جب پیرس کے ”چارلس ڈیگال ائیرپورٹ“ پر اترے تو میر ا دل خوشی سے دھک دھک کر رہا تھا اور حسن میری غیرمعمولی بے تابی پر ہنس رہے تھے۔ پیرس میں تقریباً40ہزار کے قریب چھوٹے بڑے ریسٹورنٹس ہیں جن میں سے ہمارا قیام کریمی(Creme)کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل ”ٹریمی “میں تھا۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان کا یہ ہوٹل چھوٹا سالیکن صاف ستھرا تھا۔ اس میںکچھ دیر سستانے کے بعد ہم باہر نکل آئے، اس لئے کہ حسن کو شدید بھوک لگی تھی اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ”پہلے پیٹ پوجا، پھر کام دوجا۔“ یعنی پہلے کھانا کھایا جائے گاجس کے بعد ہی کوئی اور کام کیا جائے گا۔
ہم نے ایک انڈین ریسٹورنٹ میں کھانا کھایااور پھر پیرس کی گلیاں تھیں اورہم ، یوں سمجھیں کہ معاملہ جنگل میں منگل کا تھا۔پیرس کی اکثر گلیاں اور سڑکیں وسیع اور روشن ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 1816ءمیں بالٹی مور (امریکہ) میں پہلی دفعہ گیس سے چلنی والی سٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس کے چند ہی سالوں بعد 1820میں یہ پیرس میں بھی لگادی گئیں۔ہمارے ٹورسٹ گائیڈ کا اصرار تھا کہ گیس سے چلنے والی لائٹس بھی پہلی دفعہ پیرس میں ہی لگائی گئیں، تاہم پیرس دنیا کا پہلا شہر ہے جس میں 1878ءمیں الیکٹرک سٹریٹ لائٹس لگائی گئیں۔
پیرس‘فرانس کا دارالحکومت تو ہے، فیشن کی دنیا کا دارالحکومت بھی کہلاتا ہے ۔17ویں صدی عیسوی سے ہی یہ شہر یورپ بھر میں تجارت‘معاش‘سائنس ‘ فیشن اورآرائش سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔شہر میں گزرنے والا دریائے سین(Seine ) اس کے حسن کو چارچاند لگا دیتا ہے ۔یہاں ٹرانسپورٹ یعنی میٹرو بس‘ریل گاڑیوں اور ہوائی سفر کے اعلیٰ انتظامات ہیں۔پیرس کا میٹرونظام ماسکو کے بعد دوسرا مصروف ترین نظام ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق پیرس ریجن کی جی ڈی پی فرانس کے جی ڈی پی کا 30.4فی صدہے۔ یوں اس کا جی ڈی پی دنیا میں چوتھے جبکہ یورپ میں پہلے نمبر پر ہے۔
ترکی کے تفریحی دورے کے دوران ہمیںفرانس سے تعلق رکھنے والی انتہائی خوش اخلاق اوراعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کرسٹین لیمبرٹ (Christine Lembert)ملی تھیں۔ان سے فرانس میں دوبارہ ملاقات بہت خوش کن تھی۔انہوں نے ایک رات ہمیں اپنے گھر کھانے پربھی مدعو کیا ۔ کھانا ہی نہیں، ان کے ساتھ گپ شپ کا دور بھی بہت پرلطف رہا۔ صحت ‘نگہداشت ِصحت اور صحت کی سہولیات میری دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں ۔جب ان کا ذکر چھڑا تو بتانے لگیں کہ پیرس اور اس کے قرب و جوار میں 44 سرکاری ہسپتال ہیںجن کے ذریعے تقریباً 52 شعبہ جات میں نہ صرف علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں بلکہ ان میں سے اکثر تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ باقی یورپ کے مقابلے میںیہاںادویات کی قیمتیں کافی کم ہیں اور مقامی آبادی کے لئے ہیلتھ انشورنس کی سہولت بھی دستیاب ہے۔
کرسٹین کو کسی طبی مسئلے کی وجہ سے ہسپتال جاناپڑا ۔میں نے سوچا کہ کیوں نہ لگے ہاتھوں یہاں کا ہسپتال بھی دیکھ لیاجائے ۔ وہاں کے نظم و ضبط‘ صفائی کی صورت حال اور عملے کے پیشہ وارانہ رویے سے بہت متاثر ہوئی۔یہ سب کچھ دیکھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ پیرس ایویں ہی ”ٹاپ پر“ شمارنہیں ہوتا ۔ یہاں مردوں کی اوسط عمر 82.4 سال ہے اور اس تناظر میں فرانس عالمی رینکنگ میں 9 ویں نمبر پر ہے۔یہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ہر 1000 زندہ بچوں میں3.3 ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ شرح 53.9 فی 1000 ہے۔
پاکستان میں نگہداشت صحت کی سہولیات کی ابتری دیکھیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔مزید برآں میرا مشاہدہ تو یہی ہے کہ بہت سی جگہوں پر مریضوںکے ساتھ عملے کا رویہ نامناسب ہوتا ہے ۔ہم لوگ ہسپتالوں اور کام کی دیگر جگہوں پر ایمانداری کو اپنا شعاربنا لیں اور اپنے اخلاق اور رویوں میں تھوڑی سی بہتری لے آئیں تو ہمارا کام بھی اچھاہوگااور ہمیں لوگوںکی دعائیں بھی ملیں گی ۔جن ڈاکٹروں کی پوسٹنگ گاﺅں میں ہوتی ہے‘ وہ کچھ عرصے بعد ٹرانسفر کرا کر شہروں میں آ جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ دیہات میں پریکٹس کرنے والوں کو اضافی سہولیات دے تاکہ وہ وہاں دلجمعی کے ساتھ اپناکام کر سکیں۔
کرسٹین لیمبرٹ ہمیں مشہورزمانہ ”ایفل ٹاور“ لے گئیں۔ جس طرح تاج محل برصغیر میں محبت کی یادگار سمجھی جاتی ہے‘ اسی طرح فرانس میں 1889میں تعمیر شدہ یہ ٹاور بھی محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بہت سے نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی منگنی اسی جگہ پر ہو۔ اس کے بعد ہم یونیسکوکی جانب سے قائم شدہ عالمی ثقافتی ورثے اور لوورے میوزیم (Louvre Museum) جانے کا موقع بھی ملا جو دنیا کا سب سے زیادہ دیکھے جانے والا میوزیم ہے۔پیرس دنیاکے ان10شہروں میں شامل ہے جہاں مختلف ثقافتوں کے حامل لوگ بستے ہیں۔اس کے بعد ہم پیٹِٹ پیلس (Petit Palace) بھی گئے جو کسی دور میں ایک محل تھالیکن اب ایک آرٹ میوزیم کی شکل میں موجود ہے ۔ پیرس سب سے زیادہ وزٹ کئے جانے والے شہروں میں سے ایک ہے جہاں سالانہ 22.2ملین سیاح آتے ہیں۔
اہل فرانس کھیلوںکے بھی شیدائی ہیں۔ فٹ بال ہو یا رگبی‘ ٹینس ہو یاسکوائش ‘ وہ ہر ایک میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ہمیں پیرس کی گرینڈ مسجد میں بھی جانے کا موقع ملا جو 1926ءمیں الجیریاسے تعلق رکھنے والے مسلمان اتحادی فوجیوں کی یاد میںبنائی گئی ۔ شہر بھر میں 20سے زیادہ مساجد ہیں۔
یہاں کا ”فرنچ پنیر“بہت مشہور ہے جس کی تقریباً300سے زائد اقسام ہیں۔میںتو نہیں ‘البتہ حسن پنیر کے دیوانے ہیں۔پیرس خوراک کا ونڈر لینڈہے۔فرنچ فرائز اور بریڈ کی توکیا ہی بات ہے۔یہاں زیادہ تر لوگ بھیڑ‘گائے اور بچھڑے کا گوشت (veal)پسندکرتے ہیں‘ خواہ وہ سٹیک (steak) کی صورت میں ہو یاپھر بھاپ میں پکا ہوا۔پیرس ‘کیک اور پیسٹریوں کی تو جنت ہے ۔ ہم نے یہاں لذیذپیسٹریاں‘ باداموں کے بسکٹ اور نوٹیلا کریپ (nutella crepe)کھائی۔ میں نے زندگی میں اس کی اتنی زیادہ اقسام کہیں نہیں دیکھیں اور ذائقوں کے تو کیا ہی کہنے۔میرا بس چلتا تو ساری اٹھالاتی۔ڈزنی لینڈ بھی دیکھنے کا موقع ملا ۔چَل چل کر پاﺅںتھک گئے مگر دل نہیں بھرا۔ پاسکل کے پیرس کا حسن لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے لیکن انتہائی مہنگا ہے لہٰذا ہم یادگارکے طور پر تھوڑی سی چیزیں اور بہت سی یادیں لئے ”پیرس اورلے ائےرپورٹ“ سے اگلے پڑاﺅ کیلئے روانہ ہوگئے۔
ہم عام سے پاکستانی اور عام سے لوگ ہیں لیکن جب کبھی ترقی یافتہ ممالک میں جانے کا موقع ملتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ سیکھنے کی اتنی باتیں ہیں کہ کیا بتاﺅں ۔ دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جو اکثر غیرملکی دوروں پر رہتے ہیں لیکن وہاں سے کچھ نہیں سیکھتے ۔ اصل کمی شاید احساس کی ہے۔ یہی تو ہے جو قوموں کو عروج اور ترقی سے ہمکنار کرتا ہے۔ دوسری طرف بے حسی ہے جو اقوام کو زوال کا شکارکردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دیس کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دے

Vinkmag ad

Read Previous

دانتوں کو دوست بنائے

Read Next

آپ کے صفحات

Most Popular